Header Ads

اداریہ | ویٹ اینڈ واچ


مرکز میں بلآخر مودی کی حکومت بن گئی اور اکثریت کے ساتھ بن گئی، مودی کی قیادت میں بی ٻ جےٻ پی ٻ کو اتنی سیٹیں مل گئیں جتنی کی توقع نہ تو بی ٻ جےٻ پی ٻ نے کی تھی اور نہ ہی کسی اور نے اتنی بڑی جیت کے بارے میں سوچا تھا۔
پارلیمانی انتخاب 2014 میں اگر چہ چند لوگوں خصوصاً مسلمانوں کا یہ کہنا کہ نتیجہ بہت حیران کن اور امید کے برخلاف تھا، لیکن جس طرح نریندر مودی کا دھواں دار پرچار ، کانگریس کا انتخاب سے قبل ہی ذہنی طور پر شکست تسلیم کر لینا اور صرف دفاعی انداز اختیار کرنا، بھاجپا و مودی کو کارپوریٹ گھرانوں کا تعاون حاصل ہونا اور سب سے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کا مودی و بھاجپا کے حق میں یکطرفہ رپورٹنگ کرنا، یہ سب وہ اسباب تھے جنکی بنیاد پر مجھے بہت زیادہ امید تھی کہ ضرور ” اب کی بار مودی سرکار“ ہی ہوگی۔ میں اس طرح کیوں سوچ رہا تھا اسکے بہت سارے اسباب ہیں جن پر میں بحث نہیں کرنا چاہتا، میں اس بات پر بحث کرنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ ( خصوصاً مسلم حضرات)جو بھاجپا اور مودی کو منصبِ حکومت پہ فائز ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، اب جبکہ ان کا مکمل خواب ادھورا اور ساری امید دھومل ہو چکی ہے ، تو انکا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا وہ جس خوف و ہراس کی امید لگائے بیٹھے تھے، اسی خوف و ہراس میں اپنی زندگی گزاریں گے یا اس بھاجپا سرکار سے کچھ مثبت آس بھی رکھیں گے ؟ کیا وہ کبھی اس بات پر غور و فکر کرینگے کہ بھا جپا سے پہلے کی حکومت یعنی کانگریس سرکار نے انکی ضرورتوں اور ان وعدوں کو جو انہوں نے عوام خصوصاً مسلمانوں سے کیا تھا اسے پورا کیا؟ کیا یہ سوچنے کیےلئے انکے دماغ کی بتی جل سکتی ہے کہ سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرنے اور پورے ہندوستان کو فرقہ پرست طاقتوں سے دور رکھنے کا لالی پاپ دکھا کر مسلمانوں پر ڈورے ڈالنے والی کا نگریس اپنے دعووں پر کھری اتری؟ میں اپنے تمام قارئین کو یہ یقین دلاتا چلوں کہ میں نہ توکسی پارٹی کی مخالفت کر رہا ہوں نہ حمایت،، یہ میگزین کوئی سیاسی میگزین نہیں ہے بلکہ ایک علمی، ادبی اور اصلاحی میگزین ہے جو اے ٻ ایم ٻ یو ٻ کی روایت اور اسکی پاکیزہ تہذیب کی ترجمان ہے ۔ گرچہ میرا موضوع مجموعی طور پر ہندستان کی سیاست سے متعلق ہے لیکن میں آپ کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ اس میگزین کے ذریعہ مجھے نہ تو کسی پارٹی کی حمایت کا حق حاصل ہے اور نہ ہی مخالفت کا۔ اور نہ ہی اے ٻ ایم ٻ یو ٻ کی سیکولر پہچان اور اسکی گنگا جمنی تہذیب مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہے ۔ لہذا ہر قاری سے میں ملتمس ہوں کہ وہ تعصب کی عینک اتار کر ہی اس مضمون کا مطالعہ کرے۔


اس چھوٹی سی گزارش کے بعد ایک بار پھر میں اپنی مقصدِ اصلی کی طرف آتا ہوں اور سیکولر عوام خصوصاً مسلمانوں سے میرا یہ سوال ہے کہ آخر وہ مودی اور بھاجپا سے اتنا خوفزدہ کیوں ہیں؟ آخر انہوں نے کیوں اپنے لئے ایسا ماحول پیدا کر لیا کہ انہیں ڈرنے کی ضرورت آن پڑی؟ کیا انکے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو مسند ِحکومت پر فائز ہونے سے روک سکیں؟ یا انکے پاس طاقت تو تھی ، مگر وہ اپنے آپ کو متحد نہ کرسکے اور حسبِ روایت افتراق و انتشار کے دامن سے ہی چپکے رہے؟ تو اسکا چھوٹا اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ یہ لوگ مجموعی طور پر تو اتحاد کا راگ الاپتے رہے لیکن انفرادی طور پر تفرقہ بازی ہی انکا شیوہ رہا۔ یہ دوسروں کو تو اتحاد کی دعوت دیتے رہے لیکن خود متحد نہ ہو سکے۔ اور یہ اسی بکھراؤ ہی کا نتیحہ تھا کہ دیگر صوبوں کو تو چھوڑئیے خود یو پی ہی میں کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ایک بھی مسلم امیدوار کو فتح سے ہمکنار نہ کرا سکے ۔اور میں بلا جھجھک یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس ناکامی کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں تھا بلکہ سارے افراد برابر کے ذمے دار تھے، چاہے وہ نام و نہاد مذہبی ٹھیکیدار علماء ہوں یا میدان سیاست کے نام لیوا مسلم قائدین ہوں یا عام افراد، سب کے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے باعث ہی وہ قوم جسکی حکومت سازی میں ہمیشہ سے ایک اہم رول رہا تھا آج اس لائق بھی نہ رہی کہ اپنے قوم کی تحفظ اور اسکی مفاد کی بات کرنے والے امیدواران کو کثیر تعداد میں پارلیامینٹ بھیج سکے تاکہ وہ مضبوطی کے ساتھ اپنے مسائل ذمے دارانِ حکومت کے سامنے رکھ سکیں ۔


خیر اب جو کچھ ہوا ،سو ہوا ۔اب چونکہ بھاجپا کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی جس کے باعث نریندر مودی کا وزیراعظم بننے کا خواب بھی پورا ہوگیا۔ تو اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہی کہ مسلمانانِ ہند اس حکومت کے تئیں کیا رویہ اپنائیں گے؟ کیا وہ اب بھی منفی سوچ کا اظہار کرتے رہیں گے یا اپنی سوچ میں کچھ ثبت تبدیلی لائیں گے؟ کیا واقعی مودی سرکار مسلمانوں کو خوف و ہراس کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیگی؟ تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی ہمیں جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہئیے بلکہ ” واچ اینڈ ویٹ“ یعنی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہئیے اور ہمیں اس سرکار کے اقدامات پر گہری نظر رکھنی چاہئیے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اگر ہم بھاجپا خصوصاً وزیر اعظم نریندر مودی سے مثبت امید رکھیں تو زیادہ بہتر رہے گا اور یہ بات میں ان کے چناوی اجلاسوں میں کئے گئے وعدوں کی بنیاد پر کہ رہا ہوں کیونکہ انھوں نے اپنے انتخابی وعدوں میں سوا سو کروڑ ہندستانیوں کی ترقی کی بات کی ہے۔ انھوں نے مہنگائی، بدعنوانی اور تعلیم جیسے مسائل کے حل کے لئے تمام ممکنہ کوششوں کو بروئے کار لانے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے ” سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ کا نعرہ دیا تھا۔ لہٰذا ہمیں ان سے یہی امید کرنی چاہئیے کہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلیں گے، وہ سب کی ترقی کی بات کریں گے۔ اور ”سب“ میں بلا تفریق مذہب و ملت ہندستان کے سوا سو کروڑ لوگ آتے ہیں جن میں مسلمان بھی شامل ہیں اور غیر مسلمان بھی، لہٰذا ہمیں ان سے پورے دیش بشمول مسلمان کی ترقی و فلاح کی امید کرنی چاہئیے کیونکہ ملک کا وزیر اعظم ہونے کی ناطے مودی کے اوپر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں ، بلا تفریق مذہب و ملت سب کی فلاح و بہبودی کا خیال رکھیں کیونکہ مودی نے خود کہا تھا کہ وزیر اعظم سب کا ہوتا ہے ، ان لوگوں کا جنھوں نے ووٹ دیا اور ان لوگوں کا بھی جنھوں نے ووٹ نہیں دیا۔ لہٰذا ہم انھیں اپنا وزیر اعظم تسلیم کریں اور وہ ہمیں اس آزاد ملک کا ایک آزاد باشندہ۔


لیکن افسوس ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان مودی کی جیت کے بعد دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو اب بھی مودی سے دوری بنائے رکھنا چاہتا ہےجبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس انتظار میں ہے کہ کب بھاجپا کی طرف سے گرین سگنل مل جائے اور وہ ان کے قدموں میں جا گریں۔ حالانکہ یہ دونوں روئیے بالکل ٹھیک نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا ہے کہ ہمیں ” واچ اینڈ ویٹ“ کی پالیسی اپنانی چاہئیے اور تھوڑی مدت انتظار کے بعد ہی ہمیں اپنا اگلا قدم اٹھانا چاہئیے ۔ حالانکہ ابھی بھی ہمارے نگاہ میں مودی کی حقیقت اور امیج وہی ہے جو ہم ماضی سے اب تک سنتے، دیکھتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں جبکہ ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لاتے ہوئے مودی کے اندر کسی بڑی تبدیلی کا انتظار کرناچاہئیے ۔کیونکہ مودی کی تب کی امیج ہماری نگاہ میں ہے جب وہ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ تھے جبکہ آج وہ ایک ملک کے وزیر اعظم ہیں اور یہ بات ہمیں یادرکھنی چاہئیے کہ کسی ریاست کی حکمرانی اور مرکز کی حکمرانی میں بہت فرق ہے، دونوں جگہ کی ذمےداریاں بالکل الگ نوعیت کی ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ لیڈران اقتدار سے باہر رہ کر جس سوچ کا اظہار کرتے ہیں اقتدار میں آکر بالکل اس کے مخالف سوچ کے حامل ہو جاتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی کو دیکھئے، رام مندر کی تحریک کے ذریعہ پورے ملک میں فرقہ پرستی کی بیج بونے والے اڈوانی کو جب نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دیکھا گیا تو وہ بالکل مختلف نظر آئے ۔ بطور وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے سب سے بڑے مخالف تھے لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان کے تئیں سب سے زیادہ قربت کا مظاہرہ انھوں نے ہی کیا۔ کلیان سنگھ اور اوما بھارتی کون بھول سکتا ہے جو بھاجپا سے علیحد گی کے بعد بھاجپا کو گالیاں دینے سے بھی نہ چوکے تھے لیکن جب بی جے پی میں شامل ہوئے تو اسکی مدح میں قصیدے پڑھنے لگے۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آدمی جب اقتدار میں آتا ہے تو اسکی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے اور وہ عوام، حکومت کے افراد اور دیگر مجبوریوں کی وجہ سے اپنے منفی روئے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ان تاریخی حقائق کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے زیادہ جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ حکومت کو مہلت دینی چاہئیے کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرے، اسکے ہر خوش آئند اقدام اور مثبت فیصلوں پر خوشی کا اظہار کریں، ساتھ ہی ساتھ اسکے ہر جانبدارانہ اقدامات نیز گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے والے ہر فیصلوں پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اپنی حساسیت ، فعالیت اور جسمانی و عقلی بیداری کا ثبوت پیش کریں اور حکومت کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بیٹھا دیں اگر آپ بھی عوام کی مفادات کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوئے ، اگر آپ بھی لوگوں کی امیدوں پر کھرا نہ اتر پائے تو آپ کا بھی وہی حشر ہوگا جو کانگریس کا ہوا کیونکہ حکومت کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ اقتدار تو ہندستان کے سوا سو کروڑ عوام کی جیب میں ہے وہ جسے چاہیں مسند اقتدار پر فائز کر دیں اور جس سے چاہیں یہ تاج چھین کر عام لوگوں کی جماعت میں لا کھڑا کر دیں۔


موجودہ حکومت کے تعلق سے یہ میری اپنی رائے تھی اور میرا خیال ہے کہ مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کی بھی یہی رائے ہوگی کہ آج ہمیں اپنے گریبان میں منھ ڈال کر خود اپنی غلطیوں کو ڈھونڈنا ہوگا اور خود احتسابی کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔ جلد بازی شیطان کا کام ہوتا ہے لہٰذا ہمیں جلدبازی سے احتراز کرتے ہوئے محتاط قدم اٹھانا ہوگا او ر ہمیں ہر اس طرح کے اقدامات سے بچنا ہوگا کہ جس سے ملک و ملت کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہو یا جو ہماری قوم اور ہمارے ملک کے لئے باعثِ ذلت و رسوائی ہو۔


سیاست کے تعلق سے میں اپنی بات یہیں پہ ختم کرتا ہوں اوراس میگزین کی اشاعت پہ اﷲ رب ا لعالمین کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ ہماری یہ حقیر سی کوشش اسی کی نعم و کرم و فضل و رحم کی مرہونِ منت ہے۔ ویسے اس خوشی کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی تکلیف بھی ہورہی ہے کہ ہم اپنے ہال کے گولڈن جبلی کے موقع پر ا س میگزین کو جس معیار پر لانا چاہتے تھے ویسا ہو نہ سکا ۔ ہم نے اس جشنِ زریں کو مدنظر رکھتے ہوئے میگزین کو عالمی سطح پر شائع کونے کا ارادہ کیا تھا اور اسی لئے اے ایم یو طلبہ کے علاوہ اساتذہ، دیگر نان اسٹاف عملہ اور سابق طلبائے اے ایم یو سے انکی علمی و ادبی تخلیقات کا مطالبہ کیا تھا ۔، ساتھ ہی ساتھ ملک کے چند ممتاز افراد اور اپنے متعلقہ میدان کے ماہرین کو بھی خطوط بھیج کر ان سے چند مخصوص مضامین پر لکھنے کی گذارش کی گئی تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان مذکورہ لوگوں میں سے بہت کم نے ہماری گذارشات کو لائق اعتنا سمجھا ۔ ان لوگوں نے ہماری گذارشات پر توجہ کیوں نہیں دی، اس کے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہوں گا۔ آخر میں ہم نے اپنے ہال کے چند ریسرچ ــ اسکالرس کو خطوط بھیج کر اور پھر ذاتی ملاقات کر کے بھی ان سے مضامین کا مطالبہ کیا لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔ لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ چند مدت انتظار کے بعد آخر بہت سارے تحریر سے شغف رکھنے والے حضرات کے مضامین ہمیں موصول ہوئے اور ہم نے اپنا کام آگے بڑھایااور دھیرے دھیرے یہ میگزین تکمیل کو پہونچی۔


چونکہ پیسوں کی قلت اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہم تمام مضامین کو شامل مجلہ نہ کر سکے اور اس بات کا ہمیں افسوس بھی ہے لیکن چونکہ ہم نے شروع ہی میں میگزین کو عالمی سطح پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی لئے ہم نے بقیہ چھوٹے ہوئےمضامین کے علاوہ میگزین میں شامل مضامین کو بھی انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر دیا ہے اور یہ پوری میگزین کلرڈ ہے کیونکہ ہمارے پاس پیسوں کی کمی تھی لہٰذاہم کلرڈ میگزین شائع نہ کر سکے ۔ لیکن انٹرنیٹ پر ڈالی ہوئی پوری میگزین کلرڈ ہے اور آپ اس کو مندرجہ ذیل لنک پر جا کر دیکھ اور ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں
کلمات تشکر و امتنان :- اس میگزین کی اشاعت پر میں اﷲ رب العالمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اگر اسکی توفیق شامل حال نہ ہوتی تو شاید ہم اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو پاتے۔ بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں اپنے شیخ الجامعہ لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) ضمیرالدین شاہ صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں کہ جنھوں نے طلبہ کی تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھانے کےلئے یونیورسٹی کیمپس میں جس ماحول کی ضرورت تھی اسے ممکن بنایا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنے مشفق پرووسٹ پروفیسر محمد اشرف صاحب کا بھی ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے ہر موقع پر حتی الامکان ہماری مدد فرمائی اور ہر موڑ پر ہماری حوصلہ افزا ئی کی۔بڑی ہی احسان فراموشی ہوگی اگر میں اپنے وارڈن اور میگزین کے نگراں جناب غفران احمد صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں کہ جن کے قدم قدم پر رہنمائی اور مشوروں کی روشنی میں میگزین قابل اشاعت ہو سکی۔ ساتھ ہی ساتھ اس موقع پر میں اپنے نائب مدیر ابوسلیم اور مجلس ادارت کے ممبران محمد جاوید عالم انصاری، اظہار احمد ، اور فخرالحسن کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی مختلف تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے اس میگزین کی اشاعت میں بھی ہاتھ بٹایااور ایک خوبصورت میگزین آپ تک پہونچانے میں ہماری مدد کی۔ لائق مبارکباد ہیں وہ احباب کہ جنہوں نے اپنی نگارشات اور رشحات قلم سے مجلہ کو زینت بخشی۔ میں ان قلم کاروں کا کیسے شکریہ ادا کروں کہ ان کے تخلیقات اور تعاون شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ میگزین شاید آپ کے ہاتھوں تک نہ پہونچتی۔ اﷲ کرے کہ انکی تحریری صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو اور صحافت کے میدان میں یہ ابھرتے ہوئے سورج کے مانند نمودار ہو کر ملک و ملت کیلئے خدمات انجام دیں۔


اس موقع پر میں انگلش کے ایڈیٹر ، اپنے سینئر بھائی محمد نوید اشرفی کو کیسے بھول سکتا ہوں کہ جنہوں نے بےانتہا محنت کر کے اس میگزین کی ڈیزائنگ کی اور انگلش کے مضامین کے ساتھ ساتھ اردو مضامین پر بھی گہری نگاہ ڈالی اور اپنی تجربات کی روشنی میں اس میگزین کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اﷲ انکی تعلیم میں مزید ترقی عطا فرمائے۔ چونکہ صحافت کانٹوں سے بھری دشوار گزاروادی کا نام ہے۔ ہم اس کے نووارد ہیں ۔ یہ راہ ہمارے لئے اجنبی ہے اس لئے ہمیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ ہماری نگارشات اہل قلم حضرات کی نگاہوں میں مبرا نہ ہونگی، اصحابِ علم و دانش کو جگہ جگہ زبان و بیان کی غلطیاں ، علم و تحقیق کی کوتاہیاں اور خامیاں نظر آئینگی۔ ہم اہل علم و بصیرت سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کی نشاندہی فرما کر ممنون و مشکور ہوں۔


والسلام 
محمد سلمان
 ایم ٽ اےٽ (سال اول) شعبہٴ عربی 
مدیر، اردو مجلہ ”المحسن “


Powered by Blogger.